Tuesday, 9 February 2016

Mera Naam Sa Reh Giyaa

آتے آتے، میرا نام سا ره گیا
اس کے ہونٹوں پہ کچھ کانپتا ره گیا

وه میرے سامنے ہی گیا اور
میں راستے کی طرح دیکهتا ره گیا

جهوٹ والے کہیں سے کہیں بڑھ گئے
اور میں تها کہ سچ بولتا ره گیا

آندهیوں کے ارادے تو اچھے نہ تهے
یہ دیا کیسے جلتا ہوا ره گیا

ان کی آنکهوں سے کیسے چهلکنے لگا
میرے ہونٹوں پہ جو ماجرا ره گیا

ایسے بچهڑے سبهی رات کے موڑ پر
آخری ہمسفر راستہ ره گیا

سوچ کر آؤ کوئے تمنا ہے یہ جان من
جو یہاں ره گیا ره گیا

No comments:

Post a Comment